AIK HEART ANGEAZ WAQEYA
ایک شخص نے یوں قصہ سنایا کہ
میں اور میرے ماموں نے حسب معمول مکہ حرم شریف میں نماز جمعہ ادا کی اورگھر کو واپسی کیلئے روانہ ہوئے۔ شہر سے باہر نکل کر سڑک کے کنارے کچھ فاصلے پر ایک بے آباد سنسان مسجد آتی ہے، مکہ شریف کو آتے جاتے سپر ہائی وے سے بارہا گزرتے ہوئے اس جگہ اور اس مسجد پر ہماری نظر پڑتی رہتی ہے اور ہم ہمیشہ ادھر سے ہی گزر کر جاتے ہیں مگر آج جس چیز نے میری توجہ اپنی طرف کھینچ لی تھی وہ تھی ایک نیلے رنگ کی فورڈ کار جو مسجد کی خستہ حال دیوار کے ساتھ کھڑی تھی، چند لمحے تو میں سوچتا رہا کہ اس کار کا اس سنسان مسجد کے پاس کیا کام! مگر اگلے لمحے میں نے کچھ جاننے کا فیصلہ کرتے ہوئے اپنی کار کو رفتار کم کرتے ہوئے مسجد کی طرف جاتی کچی سائڈ روڈ پر ڈال دیا، میرا ماموں جو عام طور پر واپسی کا سفر غنودگی میں گزارتا ہے اس نے بھی اپنی اپنی آنکھوں کو وا کرتے ہوئے میری طرف حیرت سے دیکھتے ہوئے پوچھتا، کیا بات ہے، ادھر کیوں جا رہے ہو؟
ہم نے اپنی کار کو مسجد سے دور کچھ فاصلے پر روکا اور پیدل مسجد کی طرف چلے، مسجد کے نزدیک جانے پر اندر سے کسی کی پرسوز آواز میں سورۃ الرحمٰن تلاوت کرنے کی آواز آ رہی تھی، پہلے تو یہی اردہ کیا کہ باہر رہ کر ہی اس خوبصورت تلاوت کو سنیں ، مگر پھر یہ سوچ کر کہ اس بوسیدہ مسجد میں جہاں اب پرندے بھی شاید نہ آتے ہوں، اند جا کر دیکھنا تو چاہیئے کہ کیا ہو رہا ہے؟
ہم نے اند جا کر دیکھا ایک نوجوان مسجد میں جاء نماز بچھائے ہاتھ میں چھوٹا سا قرآن شریف لئے بیٹھا تلاوت میں مصروف ہے اور مسجد میں اس کے سوا اور کوئی نہیں ہے۔ بلکہ ہم نے تو احتیاطا ادھر ادھر دیکھ کر اچھی طرح تسلی کر لی کہ واقعی کوئی اور موجود تو نہیں ہے۔
میں نے اُسے السلام و علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ کہا، اس نے نطر اُٹھا کر ہمیں دیکھا، صاف لگ رہا تھا کہ کسی کی غیر متوقع آمد اس کے وہم و گمان میں بھی نہ تھی، حیرت اس کے چہرے سے عیاں تھی۔
اُس نے ہمیں جوابا وعلیکم السلام و علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ کہا۔
میں نے اس سے پوچھا، عصر کی نماز پڑھ لی ہے کیا تم نے، نماز کا وقت ہو گیا ہے اور ہم نماز پڑھنا چاہتے ہیں۔
اُس کے جواب کا انتظار کئے بغیر میں نے اذان دینا شروع کی تو وہ نوجوان قبلہ کی طرف رخ کئے مسکرا رہا تھا، کس بات پر یا کس لئے یہ مسکراہٹ، مجھے پتہ نہیں تھا۔ عجیب معمہ سا تھا۔
پھر اچانک ہی اس نوجوان نے ایک ایسا جملہ بولا کہ مجھے اپنے اعصاب جواب دیتے نظر آئے،
نوجوان کسی کو کہہ رہا تھا؛ مبارک ہو، آج تو باجماعت نماز ہوگی۔
میرے ماموں نے بھی مجھے تعجب بھری نظروں سے دیکھا جسے میں نظر انداز کر تے ہوئے اقامت کہنا شروع کردی۔
جبکہ میرا دماغ اس نوجوان کے اس فقرے پر اٹکا ہوا تھا کہ مبارک ہو، آج تو باجماعت نماز ہوگی۔
دماغ میں بار بار یہی سوال آ رہا تھا کہ یہ نوجوان آخر کس سے باتیں کرتا ہے، مسجد میں ہمارے سوا کوئی بندہ و بشر نہیں ہے، مسجد فارغ اور ویران پڑی ہے۔ کیا یہ پاگل تو نہیں ہے؟
میں نے نماز پڑھا کر نوجوان کو دیکھا جو ابھی تک تسبیح میں مشغول تھا۔
میں نے اس سے پوچھا، بھائی کیا حال ہے تمہارا؟ جسکا جواب اس نے ــ’بخیر و للہ الحمد‘ کہہ کر دیا۔
میں نے اس سے پھر کہا، اللہ تیری مغفرت کرے، تو نے میری نماز سے توجہ کھینچ لی ہے۔ ’وہ کیسے‘ نوجوان نے حیرت سے پوچھا۔
میں نے جواب دیا کہ جب میں اقامت کہہ رہا تھا تو نے ایک بات کہی مبارک ہو، آج تو باجماعت نماز ہوگی۔
نوجوان نے ہنستے ہوئے جواب دیا کہ اس میں ایسی حیرت والی کونسی بات ہے؟
میں نے کہا، ٹھیک ہے کہ اس میں حیرت والی کوئی بات نہیں ہے مگر تم بات کس سے کر رہے تھے آخر؟
نوجوان میری بات سن کر مسکرا تو ضرور دیا مگر جواب دینے کی بجائے اس نے اپنی نظریں جھکا کر زمین میں گاڑ لیں، گویا سوچ رہا ہو کہ میری بات کا جواب دے یا نہ دے۔
میں نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ مجھے نہیں لگتا کہ تم پاگل ہو، تمہاری شکل بہت مطمئن اور پر سکون ہے، اور ماشاءاللہ تم نے ہمارے ساتھ نماز بھی ادا کی ہے۔
اس بار اُس نے نظریں اُٹھا کر مجھے دیکھا اور کہا؛ میں مسجد سے بات کر رہا تھا۔
اس کی بات میرے ذہن پر بم کی کی طرح لگی، اب تو میں سنجیدگی سے سوچنے لگا کہ یہ شخص ضرور پاگل ہے۔
میں نے ایک بار پھر اس سے پوچھا، کیا کہا ہے تم نے؟ تم اس مسجد سے گفتگو کر رہے تھے؟ تو پھر کیا اس مسجد نے تمہیں کوئی جواب دیا ہے؟
اُس نے پھرمسکراتے ہوئے ہی جواب دیا کہ مجھے ڈر ہے تم کہیں مجھے پاگل نہ سمجھنا شروع کر دو۔
میں نے کہا، مجھے تو ایسا ہی لگ رہا ہے، یہ فقط پتھر ہیں، اور پتھر نہیں بولا کرتے۔
اُس نے مسکراتے ہوئے کہا کہ آپکی بات ٹھیک ہے یہ صرف پتھر ہیں۔
اگر تم یہ جانتے ہو کہ یہ صرف پتھر ہیں جو نہ سنتے ہیں اور نہ بولتے ہیں تو باتیں کس سے کیں؟
نوجوان نے نظریں پھر زمیں کی طرف کر لیں، جیسے سوچ رہا ہو کہ جواب دے یا نہ دے۔
اور اب کی بار اُس نے نظریں اُٹھائے بغیر ہی کہا کہ ؛
میں مسجدوں سے عشق کرنے والا انسان ہوں، جب بھی کوئی پرانی، ٹوٹی پھوٹی یا ویران مسجد دیکھتا ہوں تو اس کے بارے میں سوچتا ہوں۔
مجھے اُن ایام خیال آجاتا ہے جب لوگ اس مسجد میں نمازیں پڑھا کرتے ہونگے۔
پھر میں اپنے آپ سے ہی سوال کرتا ہوں کہ اب یہ مسجد کتنا شوق رکھتی ہوگی کہ کوئی تو ہو جو اس میں آکر نماز پڑھے، کوئی تو ہو جو اس میں بیٹھ کر اللہ کا ذکر کرے۔ میں مسجد کی اس تنہائی کے درد کو محسوس کرتا ہوں کہ کوئی تو ہو جو ادھر آ کر تسبیح و تحلیل کرے، کوئی تو ہو جو آ کر چند آیات پڑھ کر ہی اس کی دیواروں کو ہلا دے۔
میں تصور کر سکتا ہوں کہ یہ مسجد کس قدر اپنے آپ کو باقی مساجد میں تنہا پاتی ہوگی۔
کس قدر تمنا رکھتی ہوگی کہ کوئی آکر چند رکعتیں اور چند سجدے ہی اداکر جائے اس میں۔
کوئی بھولا بھٹکا مسافر، یا راہ چلتا انسان آ کر ایک اذان ہی بلند کرد ے۔
پھر میں خود ہی ایسی مسجد کو جواب دیا کرتا ہوں کہ اللہ کی قسم، میں ہوں جو تیرا شوق پورا کرونگا۔
اللہ کی قسم میں ہوں جو تیرے آباد دنوں جیسے ماحول کو زندہ کرونگا۔
پھر میں ایسی مسجدمیں داخل ہو کر دو رکعت پڑھتا ہوں اور قرآن شریف کے ایک سیپارہ کی تلاوت کرتا ہوں۔
میرے بھائی، تجھے میری باتیں عجیب لگیں گی، مگر اللہ کی قسم میں مسجدوں سے پیار کرتا ہوں، میں مسجدوں کا عاشق ہوں۔
میری آنکھوں آنسوؤں سے بھر گئیں، اس بار میں نے اپنی نظریں زمیں میں ٹکا دیں کہ کہیں نوجوان مجھے روتا ہوا نہ دیکھ لے،
اُس کی باتیں۔۔۔۔۔ اُس کا احساس۔۔۔۔۔اُسکا عجیب کام۔۔۔۔۔اور اسکا عجیب اسلوب۔۔۔۔۔کیا عجیب شخص ہے جسکا دل مسجدوں میں اٹکا رہتا ہے۔۔۔۔۔
میرے پاس کہنے کیلئے اب کچھ بھی تو نہیں تھا۔
صرف اتنا کہتے ہوئے کہ، اللہ تجھے جزائے خیر دے، میں نے اسے سلام کیا، مجھے اپنی دعاؤں میں یاد رکھنا کہتے ہوئے اُٹھ کھڑا ہوا۔
مگر ایک حیرت ابھی بھی باقی تھی۔
نوجوان نے پیچھے سے مجھے آواز دیتے ہوئے کہا تو میں دروازے سے باہر جاتے جاتے رُک گیا،
نوجوان کی نگاہیں ابھی بھی جُھکی تھیں اور وہ مجھے کہہ رہا تھا کہ جانتے ہو جب میں ایسی ویران مساجد میں نماز پڑھ لیتا ہوں تو کیا دعا مانگا کرتا ہوں؟
میں نے صرف اسے دیکھا تاکہ بات مکمل کرے۔
اس نے اپنی بات کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے کہا میں دعا مانگا کرتا ہوں کہ
’ اے میرے پروردگار، اے میرے رب! اگر تو سمجھتا ہے کہ میں نے تیرے ذکر ، تیرے قرآن کی تلاوت اور تیری بندگی سے اس مسجد کی وحشت و ویرانگی کو دور کیا ہے تو اس کے بدلے میں تو میرے باپ کی قبر کی وحشت و ویرانگی کو دور فرما دے، کیونکہ تو ہی رحم و کرم کرنے والا ہے‘
مجھے اپنے جسم میں ایک سنسناہٹ سی محسوس ہوئی، اپنے آپ پر قابو نہ رکھ سکا اور پھوٹ پھوٹ کر رو دیا۔
پیارے دوست، پیاری بہن
کیا عجیب تھا یہ نوجوان، اور کیسی عجیب محبت تھی اسے والدین سے!
کسطرح کی تربیت پائی تھی اس نے؟
اور ہم کس طرح کی تربیت دے رہے ہیں اپنی اولاد کو؟
ہم کتنے نا فرض شناس ہیں اپنے والدین کے چاہے وہ زندہ ہوں یا فوت شدہ؟
بس اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں نیک اعمال کی توفیق دے اور ہمارا نیکی پر خاتمہ کرے، اللھم آمین
(نوٹ:یہ واقعہ انترنیٹ فورم سے عربی سے اردو میں ترجمہ کیا
BEST AHADEES
AZAAN
Azaan: is an incredible medium for the proclamation of Tawheed (Oneness of God) of Almighty Allaah and Risalaat (Prophethood) of Prophet Muhammad Sallallahu Alayhi Wasallam,
this Islaamic prayer call (sounding words) to Muslims, which constantly echoes around the globe five times every day.
Amazing though it sounds, but fortunately for the Muslims of the world, it is an established fact. Have a look at a map of the world and you will find Indonesia (an Islaamic country) right on the eastern side of the earth. Indonesia consists of numerous small islands, the principle ones amongst them being Java, Sumatra, Borneo and Saibil, all of which are well known. It is the largest country in the world, with 180 million inhabitants.
As soon as dawn breaks on the eastern side of Saibil, at approximately 5:30 am local time, Fajr Azaan begins. Thousands of Muâazzins in eastern Indonesia commence proclaiming the Tawheed (oneness) of the Almighty, Omnipotent and Omniscient Allaah and Risalaat (Universal Apostleship) of the Prophet Muhammad Sallallahu Alayhi Wasallam.
The process then continues and advances towards the Western Islands of Indonesia. The time difference between the eastern and western islands of Indonesia is one and a half hours. Hence, one and a half hours after the Azaan has been completed in Saibil, it echoes in Jakarta on Java Island. Sumatra then follows suit and before this auspicious process of calling Azaan ends in Indonesia, it has already begun in Malaysia. Burma is next in line, and within an hour of its commencement in Jakarta, it reaches Dacca, the capital city of Bangladesh. No sooner the calling of Azaan ends in Bangladesh, it has already prevailed in western India, from Calcutta to Srinagar. It then advances towards Bombay and the environment of entire India resounds with this august proclamation.
Srinagar and Sialkot (a city in north Pakistan) have the same timing for Azaan. The time difference between Sialkot, Kota, Karachi and Gowadar (a city in Baluchistan, a province of Pakistan) is forty minutes, and within this time, Fajr (Dawn) Azaan is heard throughout Pakistan. Before it ends there, however, it has already begun in Afghanistan and Muscat. The time difference between Muscat and Baghdad is one hour. Azaan resounds during this one hour in the environments of Hijaaz-e-Muqaddas (Holy cities of Makkah and Madinah), Yemen, United Arab Emirates, Kuwait and Iraq.
The time difference between Baghdad and Alexandria in Egypt is again one hour. Azaan continues to resound in Syria, Egypt, Somalia and Sudan during this hour. Alexandria and Istanbul are situated on the same geographical longitude. The time difference between eastern and western Turkey is one and a half hours, and during this time it is echoed with the call to prayer.
The process then continues and advances towards the Western Islands of Indonesia. The time difference between the eastern and western islands of Indonesia is one and a half hours. Hence, one and a half hours after the Azaan has been completed in Saibil, it echoes in Jakarta on Java Island. Sumatra then follows suit and before this auspicious process of calling Azaan ends in Indonesia, it has already begun in Malaysia. Burma is next in line, and within an hour of its commencement in Jakarta, it reaches Dacca, the capital city of Bangladesh. No sooner the calling of Azaan ends in Bangladesh, it has already prevailed in western India, from Calcutta to Srinagar. It then advances towards Bombay and the environment of entire India resounds with this august proclamation.
Srinagar and Sialkot (a city in north Pakistan) have the same timing for Azaan. The time difference between Sialkot, Kota, Karachi and Gowadar (a city in Baluchistan, a province of Pakistan) is forty minutes, and within this time, Fajr (Dawn) Azaan is heard throughout Pakistan. Before it ends there, however, it has already begun in Afghanistan and Muscat. The time difference between Muscat and Baghdad is one hour. Azaan resounds during this one hour in the environments of Hijaaz-e-Muqaddas (Holy cities of Makkah and Madinah), Yemen, United Arab Emirates, Kuwait and Iraq.
The time difference between Baghdad and Alexandria in Egypt is again one hour. Azaan continues to resound in Syria, Egypt, Somalia and Sudan during this hour. Alexandria and Istanbul are situated on the same geographical longitude. The time difference between eastern and western Turkey is one and a half hours, and during this time it is echoed with the call to prayer.
Alexandria and Tripoli (capital of Libya) are located at an hour of difference from one another. The process of calling Azaan thus continues throughout the whole of Africa. Therefore, the proclamation of the Oneness of Allaah and the Prophethood of Muhammad Sallallahu Alayhi Wasallam that had begun in the eastern islands of Indonesia reaches the Eastern Shore of the Atlantic Ocean after nine and a half hours.
Prior to the Azaan reaching the shores of the Atlantic, the process of Zohar Azaan has already commenced in eastern Indonesia, and before it reaches Dacca, Asar Azaan has started. This has hardly reached Jakarta one and half hours later, and then the time of Maghrib becomes due, and no sooner has Maghrib time reached Sumatra, then the time for calling Isha Azaan has commenced in Saibil! When the Muâazzins of Indonesia are calling out Fajr Azaan, the Muâazzins in Africa are calling out the Azaan for Isha.
If we were to ponder over this phenomenon seriously and studiously, we would conclude the amazing fact that: 'There is not a single moment when thousands if not hundreds of thousands of Muâazzins around the world are not proclaiming the Oneness of Almighty Allaah and the Prophethood of the noble Prophet MuhammadSallallahu Alayhi Wasallam on the face of this earth!' Insha Allaah, this Azaan (universal call) for five times everyday will continue till the Day of Judgment, AMEEN.
Fulfillment of Biblical Prophecy
Psalms 149: 1-9
Prior to the Azaan reaching the shores of the Atlantic, the process of Zohar Azaan has already commenced in eastern Indonesia, and before it reaches Dacca, Asar Azaan has started. This has hardly reached Jakarta one and half hours later, and then the time of Maghrib becomes due, and no sooner has Maghrib time reached Sumatra, then the time for calling Isha Azaan has commenced in Saibil! When the Muâazzins of Indonesia are calling out Fajr Azaan, the Muâazzins in Africa are calling out the Azaan for Isha.
If we were to ponder over this phenomenon seriously and studiously, we would conclude the amazing fact that: 'There is not a single moment when thousands if not hundreds of thousands of Muâazzins around the world are not proclaiming the Oneness of Almighty Allaah and the Prophethood of the noble Prophet MuhammadSallallahu Alayhi Wasallam on the face of this earth!' Insha Allaah, this Azaan (universal call) for five times everyday will continue till the Day of Judgment, AMEEN.
Fulfillment of Biblical Prophecy
Psalms 149: 1-9
149:001 Praise ye the LORD. Sing unto the LORD a new song, and his praise in the congregation of saints. 149:002 Let Israel rejoice in him that made him: let the children of Zion be joyful in their King. 149:003 Let them praise his name in the dance: let them sing praises unto him with the timbrel and harp. 149:004 For the LORD taketh pleasure in his people: he will beautify the meek with salvation. 149:005 Let the saints be joyful in glory: let them sing aloud upon their beds. 149:006 Let the high praises of God be in their mouth, and a two-edged sword in their hand; 149:007 To execute vengeance upon the heathen, and punishments upon the people; 149:008 To bind their kings with chains, and their nobles with fetters of iron; 149:009 To execute upon them the judgment written: this honour have all his saints. Praise ye the LORD.
A careful reading of this prophecy reveals that in this prophecy the promised Prophet is portrayed as king and his followers as the holy and righteous. This means that the promised prophet would be a king who would exercise the sword for the glory of the God while avenging the heathens to execute God’s worth. The followers of promised prophet will wage war against the infidels. The particular characterization of the followers of promised prophet in the above prophecy there remains no doubt that it is about Muhammad (SAW) and his followers. Glorious Qur’aan says in 3:191!
الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِيَامًا وَقُعُودًا وَعَلَى جُنُوبِهِمْ وَيَتَفَكَّرُونَ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَذَا بَاطِلًا سُبْحَانَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ
Those who remember Allâh (always, and in prayers) standing, sitting, and lying down on their sides, and think deeply about the creation of the heavens and the earth, (saying): "Our Lord! You have not created (all) this without purpose, glory to You! (Exalted are You above all that they associate with You as partners). Give us salvation from the torment of the Fire.
Muslims recite and hymn the glory of the God in their prayers five times a day, during the war, in their prayers calls five times a day, during the month of Ramadan, during their two Eids, during their Hajj (pilgrimage to Makkah for ten days each year) including all along the route and during their sojourn to Mina, Muzdalfa, and Arafaat and while circumambulating the Kaa’bah declaring the Greatness and Majesty of the God (Allaah). Contrary to this Jews and Christians use music, trumpets, coronets and bells that is to say meaningless activities in their service or congregation. They have no articles of faith and creed. Therefore, the glorification of the Lord mentioned in this prophecy is exclusive to Muhammad (SAW) and his followers alone.
Muslims conquests with their “two-edged” swords as mentioned in the prophecy beginning from conquest of Makkah in the lifetime of the Prophet Muhammad (SAW) leading to the fall of Syria, Byzantine, Persia, Egypt, Constantinople, and many other countries with the capture of many of the rulers and nobles by the hands of Muhammad’s (SAW) followers is not alien to history. Jews and Christians cannot claim this prophecy to be about any prophet especially Jesus.
No comments:
Post a Comment